قاضی جاوید کا کالم
اس بات میں ہمیشہ یہ حقیقت صاف نظر آتی ہے کہ جب بھی مسلم ممالک اسرائیل سے رویہ میں نرمی کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی بانسری بجاتے ہیں تو عین اسی وقت بے سروسامانی کی حالت میں پڑے فلسطینیوں پر کسی نہ کسی بہانے اسرائیل حملہ کر کے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیتا ہے اور ساتھ ہی پورا عالم عرب خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔
اسرائیلی ایمرجنسی سروسز کے حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں کم از کم 22 اسرائیلی ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ حماس کے سینئر کمانڈر محمد ضیف نے کہا کہ اسرائیلی اہداف پر 5000 راکٹ داغے گئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ اسی دوران اسرائیلی ایمرجنسی سروسز کے حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں کم از کم 22 اسرائیلی ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں حماس کے خلاف بمباری شروع کر دی ہے۔ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا، جب اسرائیل یہودیوں کا مذہبی تہوار ’سمحات تورا‘ منا رہا ہے۔ یہ عوامی سطح پر یہودیوں کی مقدس کتاب تورات پڑھنے کے سالانہ دور کے اختتام پر منایا جانے والا جشن ہے۔ اس سارے فساد کی طاقت اسرائیل نے سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کی اطلاعات سے حاصل کی ہے۔ چند روز پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کا کہنا تھا کہ اگر سعودی عرب معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہوجاتا ہے تو ’’چھے یا سات‘‘ مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر کے اپنے تعلقات معمول پر لا سکتے ہیں۔ اسرائیل جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بنگلا دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے فی الحال اسرائیل کے ساتھ کسی بھی خفیہ رابطے سے انکار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پس پردہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی اخبارات کو موصول اطلاعات اسرائیلی فوج کے ہفتہ سات اکتوبر کو اس دعوے کے بعد سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی علاقے سے متعدد راکٹ فائر کیے جانے کے بعد غزہ سے ’’دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل میں گھس آئی‘‘۔ اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں غزہ پٹی کے آس پاس کے علاقے کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔ ایک اور پوسٹ میں فوج نے کہا کہ پورے ملک میں اسرائیلی ’’سائرن کی آوازوں سے بیدار ہوئے اور حماس نے غزہ سے ان پر راکٹ داغے‘‘۔ اسرائیل کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اپنا دفاع کریں گے‘‘۔
حماس کو جرمن حکومت، یورپی یونین، امریکا اور بعض عرب ریاستیں ایک دہشت گرد تنظیم تسلیم کرتی ہیں۔ حماس کے سینئر کمانڈر محمد ضیف نے کہا کہ اسرائیلی اہداف پر 5000 راکٹ داغے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی میں اہداف کو نشانہ بنا کر جوابی کارروائی کی ہے۔ جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے کہا کہ وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے فوج کے ریزرو دستوں کو متحرک کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ لازمی فوجی سروس مکمل کر لینے والے تقریباً تمام اسرائیلی باشندوں کو ہنگامی حالات کے دوران کمک فراہم کرنے کے لیے ریزرو فورس میں شامل کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی قصبوں اشکیلون، گیڈرا اور یاونے میں لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ایک اسرائیلی ایمبولینس سروس کے مطابق ایک 70 سالہ خاتون اس وقت شدید زخمی ہوگئیں جب راکٹ براہ راست گیڈرا کے قریب ایک رہائشی عمارت سے ٹکرایا۔ طبی ماہرین نے مزید کہا کہ 15 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے جن میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ ساری صورتحال نئی نہیں ہے ایک طویل عرصے سے سفارتی تعلقات کا قیام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اس سلسلے میں پاکستان اور اسرائیل کہاں کھڑے ہیں؟ اس میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ پاکستان کے مطابق وہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا، جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2020ء کے ٹرمپ ابراہیمی معاہدے نے ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی راہ کسی حد تک ہموار کر دی ہے۔ ابراہیمی معاہدے سے پہلے بھی اسرائیل کے خلیجی ممالک کے ساتھ بھی رابطے موجود تھے لیکن انہیں خفیہ رکھا گیا تھا۔ دوسری جانب ان ممالک نے مختلف شعبوں میں اسرائیلی تعاون سے فائدہ بھی اٹھایا اور یہی خفیہ تعلقات بعد میں کْھلے سفارتی تعلقات کی بنیاد بنے۔
2009 میں سنڈے ٹائمز میں یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب نے واضح طور پر اس بات پر رضا مندی ظاہر کی تھی کہ اسرائیلی طیارے ایک مشن کے حصے کے طور پر اس کی فضائی حدود استعمال کریں گے، جو مشترکہ مفادات کو پورا کرے گا۔ اسرائیلی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس) کے مطابق اسی طرح اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کا اعلان تو بعد میں ہوا لیکن ان دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کا سلسلہ پچیس برس پہلے شروع ہو چکا تھا۔ آئی این ایس ایس نے مارچ میں شائع ہونے والے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایک مشکل معاشی صورت حال اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہی وقت ہے کہ اسرائیل خفیہ انداز میں پاکستان کے ساتھ رابطے بڑھا سکتا ہے، دہشت گردی کے خلاف معاونت فراہم کر سکتا ہے، بالواسطہ معاشی حمایت فراہم کر سکتا ہے اور یہ کام سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے نئے خلیجی اتحادیوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل کی آریل یونیورسٹی کے پروفیسر گاڈی ہیٹ مین اور موٹی سویلنگ نے 2021 میں ’ریسرچ گیٹ‘ ویب سائٹ پر ایک تحقیق جاری کی تھی۔ اس تحقیق میں خلیج کے 150 مشہور ٹویٹر اکاؤنٹس کا جائزہ لیا گیا تھا، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خلیجی ممالک اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے حوالے سے 2017 میں ہی سوشل میڈیا پر بحث کا آغاز ہو گیا تھا اور اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز نے یہی تجویز پیش کی ہے کہ اسرائیل کو پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کے لیے سوشل اور روایتی میڈیا پر ایسی بحث کو بڑھانا چاہیے اور ایسا اردو زبان میں کیا جانا چاہیے۔
اقوام ِ متحدہ کے یو این خبرنامہ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین فائرنگ کے تازہ ترین واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کشیدگی میں اضافے اور ’’مزید جانی نقصان کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے‘‘ اور اسرائیل سے کہا ہے وہ بمباری بند کر ے۔ اپنے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی فضائی حملوں میں شہریوں کی جانوں کے ضیاع کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اسرائیل کے نقار خانے میںتوتی کی آواز سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جسارت کراچی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: پی پی ایس (پاکستان پریس سروس) کا کسی بھی خبر، تبصرے، تجزیے یا کسی بھی مضمون نگار / کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ کو یہ تحریر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کریں۔ علاوہ ازیں آپ بھی اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر info@ppsnews.org پر ای میل کر سکتے ہیں۔