تحریر: سردار حمید روغانی
مسلمانان برصغیر پاک وہند کیلئے الگ اور آزاد ریاست کے حصول میں جہاں تک مسلمانوں کے سیاسی رہنماؤں نے بیداری قوم اور سیاسی میدان میں ایک متحرک اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس تحریک کو دوام بخشنے میں مسلم پریس اور ابلاغ کا بھی مرحلہ وار ایک اہم کردار رہا،اگرچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی موجودگی میں باقاعدہ طور پر صحافت کا آغاز ”ہکی گزٹ یا کولکتہ جنرل ایڈورٹائزر سے شروع ہوا تھا” جسے James Augustus Hickey نے شروع کیا تھا تاہم1857 کی جنگ آزادی اور تحریک خلافت کے بعد مسلمانوں میں اشتعال اور جذبہ حریت بڑھ گیا جسکے کئی تاریخی محرکات تھے،اسی اثنا میں مسلمانان ہند نے باقاعدہ طور پر آزادی کیلئے قومی سطح پر کوششوں کا آغاز کیا جس میں اس وقت کے موجود معمولی حیثیت کے مسلم پریس نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا،اس عمل کو ایک خطرے کے طور پر بھانپ کر مسلم صحافت کے خلاف اقدامات شروع ہوئے-
اس حوالے سے پاکستان میں ہندو پاک پریس کے مورخین اور دانشوروں ”ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور ڈاکٹر مہدی حسن” کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں دہلی اردو اخبار کے پروپرائٹر کو قتل کیا گیا جبکہ اسکے ایڈیٹر محمد آزاد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے،اسی طرح ایک دوسرے اخبار کے ایڈیٹر جمال الدین کو 3 سال کیلئے جیل بھیج دیا گیا، اس دور میں مسلم پریس کو حوصلہ تب ملا جب سر سید احمد خان نے”سائنٹفک سوسائٹی میگزین” اور ”تہذیب الاخلاق” کی اشاعت کا آغاز کیا،انکے یہ دو مطبوعات مسلمانان پاک وہند میں سیاسی بیداری اور دو قومی نظریے کی ترویج کررہے تھے،سر سید نے مسلمان معاشرے میں اصلاحات لانے کیلئے ان صحافتی ذرائع کو استعمال کیا اور فیصلہ کیا کہ پریس کی طاقت کو پاک وہند کے مسلمانوں کی شعوری اور سیاسی بیداری کیلئے استعمال میں لایا جائے، سر سید کی ان طباعتوں سے حوصلہ لیکر کئی دیگر مسلم اخبارات بھی شروع ہوئے جنھوں نے آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی بیداری کیلئے نہایت اہم کردار ادا کیا جن میں انگریزی،اردو،بنگالی اور سندھی اخبارات شامل تھے، ڈاکٹر خورشید اور ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق برصغیر کے مسلمانوں میں تقسیم بنگال،کان پور مسجد کے افسوس ناک واقعات،ترکی اور اٹلی جنگ اور بلقان کی جنگوں نے ایک نئی مزاہمتی سوچ پیدا کی جسکے نتیجے میں یہاں پر صحافت کا ایک نیا اہم دور شروع ہوا،اس تناظر میں یہاں کے سیاسی رہنماؤں نے قومی بیداری کیلئے صحافت کو ایک نئی جہت میں استعمال کرنے کا ارادہ کیا-
ان رہنماؤں نے بیک وقت قومی لیڈرشپ اور صحافی کا کردار ادا کیا جن میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابولکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور مولانا حسرت موہانی قابل ذکر ہیں،”جنگجویانہ صحافت” کے نام سے منصوب اس دور کے ان لیڈران نے زمیندار،ہمدرد،الہلال،کامریڈ اور اردوئے معلی جیسے صحافتی مطبوعات کے ذریعے مسلمانوں کی بیداری میں ایک اہم کردار ادا کیا اور ان میں سیاسی شعور کی ایک نئی روح پھونکی،حصول آزادی کے قریبی دور میں مسلم صحافت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے جس نے مسلمان پاک وہند کیلئے جداگانہ ملک کے قیام میں اپنے گہرے اثرات چھوڑے،اس دور میں ایک موقع پر شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو اپنے تاریخی خطبہ الہ آباد کے موقع پر ہندوستان کی ہندو پریس نے تنقید کا نشانہ بنایا تو لاھور کے اخبارات ”انقلاب اور مسلم اوٹ لوک” اور لکھنؤ کے ”ہم دم” اخبار نے انکی بھرپور حمایت کی اور ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے الگ اور آزاد ملک کے قیام کے نظریئے کی بھر پور تائید کی،انیسویں صدی کے چوتھے عشرے کے درمیان میں کئی نئے اسلامی اخبارات جیسے ڈان،مارننگ نیوز،نوائے وقت،جنگ وغیرہ نے مملکت کے حصول میں سیاسی رہنماؤں کے شانہ بشانہ اپنا ابلاغی کردار ادا کیا .
اس دور میں بڑے پائے کے دو صحافیوں الطاف حسین اور حمید نظامی نے اپنے ایڈیٹوریلز کے ذریعے معاشرے کے ”Intelligentiar” پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے کاز کی مسلم اخبارات نے آزادی کے قریبی سالوں میں بھرپور حمایت کی،بانی قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے تاریخی قرارداد لاھور 1940 کے موقع پر ایک فعال اور مضبوط پریس کی موجودگی کو ضروری سمجھا تاکہ وہ رائے عامہ ہموار کرنے میں اثر پذیر ہوسکیں،ایسے میں قاید اعظم کے ہفت روزہ اخبار ڈان کی 1943 میں روزنامہ کے طور پر اشاعت شروع ہوئی اور آزادی کے حصول تک اس انگریزی اخبار نے مسلمانوں کی ترجمانی کا موثر کردار ادا کیا،اسی طرح جنگ اخبار نے تحریک آزادی میں اپنے حصے کا نمایاں کردار ادا کیا،یہ دوسرا بڑا اخبار تھا جس نے آزادی کی تحریک کو طاقت بخشی،میر خلیل الرحمان نے دہلی سے اس اخبار کی اشاعت دوسری جنگ عظیم کے دور میں ہفت روزہ کے طور پر کیا تھا اور اس تناظر سے اس اخبار کا نام بھی جنگ رکھا تھا تاہم جب تحریک نے آخری وقت میں مزید زور پکڑا تو میر صاحب نے اس اردو ہفت روزے کو روزنامے میں تبدیل کردیا اور آزادی کے بعد اسکا دفتر کراچی منتقل کردیا گیا-
آزادی کی مشال کو روشن اور چمن کی آبیاری میں برصغیر کے دوسرے بڑے اخبار نوائے وقت کے شروعات اس سفر میں ایک اور اضافی تھا جب پہلی دفعہ 29مارچ 1940 کو پندرہ روزہ کے طور پر چھپا اور پاکستان کے عظیم صحافی حمید نظامی نے اس اخبار کو شروع کیا،اس اخبار نے تحریک حصول پاکستان کی حقیقی ترجمانی کی،اگر بغور جائزہ لیا جائے تو حصول آزادی کی لمبی تحریک میں اپنے دور میں مسلم پریس اور عظیم لکھاریوں نے اپنا ایسا حصہ ڈالا ہے جو آج ہمارے لئے ایک سنہری تاریخ ہے،ان مطبوعات اور صحافی حضرات نے اس ریاست کے قیام کی بنیادوں میں اپنا حصہ ڈالا،یقینا پریس کسی بھی ریاست کا چوتھا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے اور وہ اسی ریاست میں معاشرے کی اصلاح،ترقی اور ابلاغ کی بھاری ذمہ داری نبھاتا ہے،اس اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج ہمارے اس مملکت خداداد کو زیادہ ذمہ دار صحافت کی ضرورت ہے،آج کے دور میں
Disinformation ,Misinformation ,Fake Information ,Propaganda Warfare اور Fifth Generation Warfare
جیسی اصطلاحات اور تھیوریز کی یلغار میں قوم کی صحیح رہنمائی،قومی وحدت،حب الوطنی،یگانگت،استحکام اور نیشنل سیکورٹی میں ہمارے ذرائع ابلاغ اور پریس کو وطن سے محبت کا اظہار ہی ہماری کامیابی ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ اور میڈیا یقینا آج کے زمانے میں ملک کی ترقی اور عوام کی بیداری کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور ریاست پاکستان کی سالمیت،وحدت اور استحکام کیلئے اپنے حصے کی یہ ذمہ داریاں حقیقی معنوں میں آئندہ کیلئے بھی ادا کریں گے-