ناصر مغل کا کالم
عمران خان 1996 ء میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے کے بعد باقاعدہ فعال سیاست کا حصہ بنے تھے۔ وہ 1997 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے انتخاب میں جیت کر پارلیمنٹ پہنچے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عمران ان کے قریب چلے گئے۔ ان کی گڈ بک میں شامل ہوئے۔ 2001 میں نائن الیون واقعہ کے بعد افغانستان پر حملے کے لیے جب پاکستان امریکی اتحادی بنا تو عمران کی طرف سے اس فیصلے کی تائید اور دفاع ریکارڈ پر موجود ہے۔2002 میں دوسری بارانتخاب لڑ کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
2007 میں پرویز مشرف کے خلاف سیاسی جماعتوں نے بڑی تحریک شروع کی تو عمران اس حزب اختلاف اتحاد کا حصہ بن گئے۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔اس طرح 12 برس تک وہ اس حد تک ہی مقبول تھے کہ دو بار صرف ذاتی طور پر الیکشن جیت سکے۔ مزید تین سال گزرے، صورت حال جوں کی توں رہی۔ پھر دسمبر 2011 میں یکایک ان کی پارٹی نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک عظیم الشان جلسہ کیا جس نے راتوں رات عمران خان کو سیاسی شہرت عطا کردی۔ اور وہ اچانک ایک بڑے سیاست دان کے طور پر ابھر کر سامنے آ گئے۔
کامل 15 سال تک ان کی شخصیت کا کرشمہ خوابیدہ رہا، اور ایک ہی جلسے نے پی ٹی آئی کو صف اول کی سیاسی جماعت کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ بالکل کسی فلمی کہانی کی طرح۔
لاہور جلسے کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف اور عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ سوشل میڈیا کپتان کے تذکروں سے بھر گیا۔ مقبولیت کا ایک سیلاب تھا جو تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی لگ بھگ 35 نشستیں جیت لیں۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی الیکشن میں وہ بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور صوبے میں اس کی حکومت قائم ہوئی۔پھر اسی الیکشن پر دھاندلی کے الزامات لگا کر اگلے ہی برس، 2014 میں عمران خان نے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دے دیا۔ 126 دن تک جاری رہنے والا یہ دھرنا بھی شہ سرخیوں میں رہا۔ عمران خان اس دوران ایک بااثر اور طاقتور سیاست دان کے طورپر پیش کیے جارہے تھے۔ میڈیا پر ان کا راج تھا۔ ہر طرف انہی کے چرچے۔15 برس کا جمود یک لخت ختم ہوا، دسمبر 2011 کے جلسے میں، اور پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان اور ان کی پارٹی عروج کی طرف بڑھتی چلی گئی۔
وہ 1992 میں کرکٹ چھوڑ چکے تھے، کینسر ہسپتال بنا چکے تھے، لیکن’قوم کے دل کی آواز‘ مینار پاکستان جلسے کے بعد بنے۔ یقینی طور پر بہت سے عوامل نے انہیں مدد فراہم کی ہوگی، لیکن مقتدر حلقوں کی آ شیر باد اور پشت پناہی اس Rising کی اصل محرک تھی، جس کی کہانیاں بعد میں کھلیں۔
2018 کے الیکشن سے پہلے ہی ملک میں سٹیج تیار ہو چکا تھا جہاں عمران خان کا جلوہ گر ہونا طے تھا۔ سو وہ ہوئے اور پی ٹی آئی انتخاب میں اکثریتی جماعت بن کر بالآخر اقتدار پر فائز ہو گئی۔
تحریک انصاف کی حکومت سیاسی مخالفین کے لیے انتقام اور فسطائیت کا دور تھا۔ الزامات اورمقدمات کی بھرمار تھی، اور اپوزیشن جماعتیں قید و بند کا منہ دیکھتی رہیں۔ اس دور میں مخالف سیاسی رہنماؤں کو بڑی تعداد میں جیلوں کے اندر پھینکا گیا۔ اور یہ سب کچھ تحریک انصاف کے قائدین اور حامیوں کی تفریح طبع کا سامان تھا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بیانات، پریس کانفرنسز، خود وزیر اعظم عمران خان اپنی تقاریر میں ان معاملات سے متعلق خوب کھل کر تنقید اور طنز ومزاح کے پیرائے میں ذکر ضرور کرتے۔ پی ٹی آئی خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفین کی کردار کشی اور ان پر مقدمات کے بارے میں خوب مذاق اڑاتی تھی۔ اس کے حامی ہر طرح کی زبان استعمال کرتے۔ حزب اختلاف کی کردار کشی اور کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
پھر وقت بدلا، فلمی کہانیوں ہی کی طرح۔منظر نامہ تبدیل ہوا اور عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے محروم ہو گئے۔اقتدار چھوٹا تو پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے دے دئیے۔
اب کپتان سڑکوں پر آ گئے۔ جلسے کیے، کارکنوں کو نئے نئے قصے سنائے، انہیں اکسایا، ذہن سازی کی، اور جارحانہ سیاست کا بازار گرم کردیا۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا سیل بھی بدستور متحرک تھا۔ ٹرینڈز چلائے جاتے، گالیوں پر مبنی یہ ٹرینڈز تحریک انصاف کا ہتھیار بن گئے۔ کپتان اقتدار سے نکل کر بھی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ پہلے ہیروکے کردار میں، اب ولن۔
فلم تیزی سے اپنے کلائمیکس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ تب 9 مئی کا دن آ گیا۔ عمران خان کو ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور ان کے حامیوں نے ملک میں فسادات شروع کر دئیے۔
بلوے اور حملے ہوئے، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، توڑ پھوڑ اور تشدد نے حساس تنصیبات کا رخ کر لیا۔
یہاں فلم نے twist لیا اور ولن کولے ڈوبی۔ اب کہانی سنگین موڑ لے چکی تھی۔ کریک ڈاؤن شروع ہوا اور شرپسندوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ پکڑ دھکڑ ہوئی تو پی ٹی آئی کے بے شمار قائدین روپوشی میں چلے گئے۔
گرفتاری سے پہلے عمران کی جائے پناہ زمان پارک تھی۔ رہائش گاہ کے باہر جان نثاروں کے ڈیرے لگے۔ 9 مئی کے بعد یہ بسیرے بھی اجڑ گئے، اور کپتان ضمانت پر قید سے رہا تو ہو گئے تاہم ان کا مستقبل نوشتہء دیوار تھا۔ لیکن وہ فلم ہی کیا جس میں ڈرامہ نہ ہو۔
کپتان کودوسری بار گرفتار کر کے اٹک جیل بھیج دیا گیا۔ اس اقدام کے پیچھے سیکیورٹی معاملات کارفرما تھے یا پھر قدرت کی ستم ظریفی۔آج کل کپتان عدالت سے درخواست کر رہے ہیں کہ انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کیا جائے، کیوں کہ وہاں سہولیات کم ہیں،وہ جگہ دور بھی پڑتی ہے وغیرہ۔ اس پر سماعت جاری ہے۔
2018 میں تحریک انصاف نے ایک گانے کی وڈیو ریلیز کی تھی جس میں شاہ زمان، جواد کاہلوں اور عمران اسماعیل نے آواز کا جادو جگایا۔ ”روک سکوتو روک لو تبدیلی آئی رے“۔اس گانے کی پروڈکشن لاجواب ہے۔ فن کاروں کی پرفارمنس اعلیٰ۔ دھن دل نشیں، اور بول ایسے کہ تحریک انصاف کے حمایتی خوب جھوماکرتے۔ گانے کی ٹیگ لائن ہے”نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ“۔آج کپتان خود اسی تگ ودومیں ہیں۔ ان کی سیاست اسی ٹیگ لائن کے گردگھوم رہی ہے کہ کہ مائی لارڈ!نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ۔
ممکن ہے کہ کپتان کو سپریم کورٹ سے رہائی بھی مل جائے لیکن عدالتی اور سیاسی تاریخ میں ’نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ“ کیس کو ضرور یاد رکھا جائے گا۔
