صفحہ اول / آرکائیو / کشمیر کی آزادی میں گلگت بلتستان کا کردار

کشمیر کی آزادی میں گلگت بلتستان کا کردار

جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ

1980ء میں جی ایچ کیو میں کشمیر کی جنگ آزادی سے متعلق ہم نے تحقیق کی تو حیرت ہوئی کہ 1948ء کے جہاد کشمیر کے بہت سے اہم پہلو ایسے ہیں جو اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے لہٰذا اسی سلسلے میں ایک سمینار اسکردو میں منعقد ہوا۔ شمالی علاقہ جات جنہیں اب گلگت بلتستان کہا جاتا ہے کشمیر کا حصہ تھے اور چونکہ یہاں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی، اس لیے عوام کی خواہش پاکستان میں شمولیت کی تھی لیکن جب مہاراجا کشمیر نے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو گلگت بلتستان کے لوگوں نے آزادی کی جنگ شروع کر دی۔ گلگت میں موجود گلگت اسکاوٹس کے دلیر صوبیدار میجر محمد بابر نے اپنے کمانڈنگ آفیسر اور سیکنڈ ان کمانڈ کو بیرکوں میں بند کر دیا۔ مہاراجا کے مقررکردہ گورنر بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ اور گورنر کی طرف سے ایک پیغام بونجی میں موجود بھارتی یونٹ 6 جموں اینڈ کشمیر بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل عبدالحمید کو بھیجا کہ وہ فوراً گلگت آئیں۔ وہ گھوڑے پر سوار گلگت پہنچے تو صوبیدار میجر بابر نے ان کا استقبال کیا اور گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے انہیں بتایا کہ گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنگ آفیسر میجر براون اور سیکنڈ ان کمانڈ کیپٹن میتھی کو بیرکوں میں قید کر دیا گیا ہے اور گورنر گھنسارا سنگھ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور اب آپ ان کی راہنمائی کریں۔ کرنل عبدالمجید نے صوبیدار میجر کو ڈانٹ پلائی کہ یہ کیا بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔ بھارت ایک بہت بڑی قوت ہے اور اس سے لڑنا حماقت ہوگی۔ یہ سن کر صوبیدار میجر بابر نے کرنل عبدالمجید کو بھی بیرکوں میں بند کر دیا۔ ادھر بونجی میں بھارتی یونٹ کے مسلمان افسروں نے مجاہدین کی آمد کا ہوّا کھڑا کرکے ہندو اور سکھ افسروں کو بھگا دیا اور اسلحہ اور گولہ بارود پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان آرمی کی طرف سے میجر اسلم کو گلگت اسکاوٹس کا آفیسر کمانڈنگ پوسٹ کیا گیا اور ان کے بھائی میجر انور کو ڈی کیو پوسٹ کیا گیا۔ میجر اسلم نے 6 جموں اینڈ کشمیر بٹالین کے مسلمان افسروں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی اور 28 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد کرالیا۔

جنرل گریسی نے ان آپریشنز پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں نپولین بونا باٹ کے بعد جنگی اصولوں کے استعمال کی بہترین مثال قرار دیا۔ سیمینار میں بریگیڈئر اسلم بھی موجود تھے، میجر انور بھی اور وہ افسر بھی جو بھارتی یونٹ سے ان کے ساتھ آ شامل ہوئے تھے، مثلاً گروپ کیپٹن شاہ خان، میجر محمد خان جرال اور بہت سے نان کمیشنڈ آفیسرز اور سولین جنہوں نے بہادری کی نئی داستان رقم کیں۔ میجر محمد خان جرال نے دو مختلف موقعوں پر سری نگر سے آنے والے دو بریگیڈ فوج کو آگے بڑھنے سے روکا تھا۔ میجر (اس وقت لیفٹیننٹ) محمد خان جرال اس فوجی دستے کے کمانڈر تھے جنہوں نے سری نگر سے بریگیڈئر فقیر سنگھ کی قیادت میں آنے والے بریگیڈ کو گھات لگا کر تباہ کیا۔ انہوں نے اس واقعے کی تفصیلات سنائیں:

مجھے دو پلاٹون دے کر یہ مشن سونپا گیا کہ بریگیڈئر فقیر سنگھ کی قیادت میں آنے والے بریگیڈ کا راستہ روکوں جو اسکردو میں محصور بھارتی فوجیوں کی مدد کے لیے آ رہا تھا۔ میں نے علاقے کی ریکی کی اور اسکردو اور گول کے درمیان ایک جگہ ’’تورگ پڑی‘‘ میں نے گھات لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس جگہ دریا کے کنارے کا راستہ بھی تنگ ہو جاتا ہے۔ گزرنے والے دستے کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ میں نے حوالدار نذیر احمد کو ایک مشین گن دے کر اس جگہ ’’اسٹاپنگ پوائنٹ‘‘ بنانے کا حکم دیا کہ دشمن کے کسی شخص کو اس جگہ سے آگے نہیں جانے دینا۔ بھارتی دستے 17 مارچ 1948 کو گھات والے علاقے میں داخل ہوئے۔ یہاں رک کر پہلے انہوں نے کھانا کھایا اور پھر یہ سمجھ کر ان کے سفر کا مشکل ترین راستہ تو طے ہو چکا، وہ لاپروائی سے اسکردو کی طرف بڑھنے لگے۔ جیسے ہی ان کے آگے چلنے والے افراد ’’اسٹاپنگ پوائنٹ‘‘ پر پہنچے، حوالدار نذیر احمد نے مشین گن سے فائرنگ سے شروع کر دی۔ یہ باقی لوگوں کے لیے بھی سگنل تھا کہ وہ فائر کھول دیں۔ دریا پار متعین دونوں پلاٹونوں نے فائر کھول دیا۔ بھارتی فوجیوں کو جوابی کارروائی کا موقع ہی نہ مل سکا۔ وہ اندھا دھند ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ زیادہ تر فوجی ہلاک ہوگئے: صرف وہ چند افراد بچ گئے جو بالکل آخر میں تھے۔ وہ بھاگ کر گھات کے علاقے سے نکل گئے۔ ان میں بریگیڈئر فقیر سنگھ بھی شامل تھا۔ مجاہدین کے ہاتھ لگنے والی چیزوں میں ایک لاکھ گولیاں، مارٹر توپیں، مشین گنیں اور اشیائے خورو نوش کی بڑی مقدار شامل تھی جو ہمارے ہاتھ لگ گئیں۔

بھارتیوں نے اسکردو گیریژن کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش کی اور ایک دوسرا بریگیڈ مختلف راستے (براستہ استور) بھیجنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ وہ زیادہ محتاط اور چوکنے تھے لیکن لیفٹیننٹ محمد خان جرال ان سے زیادہ مستعد اور ہوشیار تھے۔ انہوں نے گھات لگائی اور دشمن کو کافی نقصان پہنچا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبورکر دیا۔ گروپ کیپٹن شاہ خان 1948ء میں لیفٹیننٹ تھے۔ جب یہ خبر یں ملیں کہ بھارت کا ایک بریگیڈ کارگل کے علاقہ میں جمع ہو رہا ہے اور برف پگھلنے پر درہ برزل کو عبور کر کے استور کے راستے، اسکردو آئے گا اور مجاہدین کو نقصان پہنچائے گا، میجر اسلم نے لیفٹیننٹ شاہ خان کی قیادت میں 600 افراد اکٹھے کیے، انہیں ’’اسکیمو فورس‘‘ کا نام دیا۔ ان کے ساتھ 150 بوجھ اٹھانے والے افراد بھی تھے جنہوں نے ایمونیشن کے 130 بکس، مارٹر کے 6 بکس اور ایک مشین گن اٹھائی۔ ہر شخص نے تین دن کا کھانا اور 150 گولیاں اٹھائی ہوئی تھیں۔ بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ جوتے تھے تو جرابیں نہیں تھیں۔ قمیص تھی تو سویٹر نہیں تھا۔ آٹے میں سوکھی خوبانیاں وغیرہ ملا کر روٹیاں بنائی گئیں جسے مقامی زبان میں’’پُٹھی‘‘ کہتے ہیں، وہ کھانے کے طور پر جوانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ بھوک کے وقت پٹھی کو تھوڑا تھوڑا کرکے کھانا تھا اور پیاس کی شکل میں برف چوسنی تھی۔ آٹے کی بوریوں کو پھاڑ کر اس کے ٹکڑے جوانوں میں تقسیم کر دیے گئے جو انہوں نے اپنے پیروں پر لپیٹ لیے۔ ایک اور مسئلہ دھوپ سے بچنے کا تھا، جب برف پر سورج چمکتا ہے تو اتنی زیادہ چمک پیدا ہوتی ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ شہتوت کے پتوں میں چوٹے چھوٹے سوراخ کر کے لچکدار شاخوں کی مدد سے کمانیاں بنائی گئیں اور انہیں عینکوں کے طور پر استعمال کیا گیا۔

اس ’’تیاری‘‘ کے ساتھ ’’اسکیموفورس‘‘ کو درہ برزل عبور کرکے کارگل کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ راستے میں کوئی درخت، جھاڑی یا غار نہیں تھی جہاں سستانے کے لیے قیام کیا جاتا۔ حکم یہ تھا کہ ’’چلتے رہنا، چلتے رہنا‘‘۔ میجر اسلم نے ہدایت کی تھی کہ رات کے وقت اور صبح سویرے برف سخت ہوگی اور اس پر چلنا آسان ہوگا۔ جو بات نہیں بتائی گئی تھی، وہ یہ تھی کہ جب سورج نکلتا ہے تو برف نرم ہو جاتی ہے کہ لوگ کمر کمر تک برف میں دھنس جاتے تھے لیکن چلتے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

تین دن تک وہ چلتے رہے، چلتے رہے، گلتری پہنچے تو مقامی لوگوں نے کھلی بانہوں سے ان کا استقبال کیا، جس کے پاس جو کچھ تھا لاحاضر کیا۔ آٹا، گھی، چینی، سوجی، ایک شخص نے آٹے کا ایک کنستر مجاہدین کے لیے بچا کر رکھا تھا وہ خود بھوکا رہا لیکن اس نے آٹے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ تھا گلگت بلتستان کے لوگوں کی قربانیوں کا عالم، جنہیں پاکستان نے ساٹھ سال تک ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور پاکستان کے کسی فورم پر مناسب نمائندگی تک نہیں دی گئی۔

بہت سے لوگوں کی آنکھیں، برف سے منعکس ہوتی ہوئی تیز کرنوں کی وجہ سے سوج گئی تھیں۔ اس کا یہ علاج کیا گیا کہ چائے بنا کر لوگوں کو پلائی گئی اور چائے کی پتیوں کا پلٹس بنا کر بند آنکھوں پر رکھ دیا گیا۔ اللہ کے فضل سے ایک ہی رات میں اکثریت کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ ایک دن آرام کے بعد یہ فورس کارگل اور دراس کی طرف بڑھی۔ بھارت کے زولو بریگیڈ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ فروری کے مہینے میں کوئی فورس درہ برزل کو عبور کر لے گی۔ وہ بے خبری میں مارے گئے۔ اسکیمو فورس نے (Surprise) کے جنگی اصول پر عمل کرتے ہوئے دشمن کا پورا بریگیڈ تباہ کر دیا۔ صوبیدار نصیب علی اپنے ساتھیوں سمیت اسکردو سے بہت دور زاسکر میں مصروف کار تھے۔ گلگت اسکاوٹس کی کمان میں تبدیلی کے بعد نئے کمانڈر نے معاملات کو سمجھنے تک تمام کاروائیاں روک دیں اور کارگل اور لداخ میں مصروف کار فوجی دستوں کو واپسی کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں زاسکر کے فوجی دستے تنہا رہ گئے اور انہیں دشمن نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ صوبیدار نصیب علی ان محصورین میں شامل تھے۔ انہوں نے واقعہ تفصیل سے بتایا سامعین گوش برآواز تھے۔ انہوں نے بتایا۔

’’ہم پدم ہی میں محصور تھے جب دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہوگئی۔ ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ ہندووں نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں لکھا کہ گلگت تک کا علاقہ بھارت میں شامل ہو چکا ہے۔ اور مزید مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں، ہتھیار ڈال دو۔ ہم سے وعدہ کیا گیا کہ ہمیں بحفاظت دہلی بھجوا دیا جائے گا۔ ہم نے جواب دیا کہ اگر پوری دنیا بھی بھارت میں شامل ہو جائے پدم پاکستان کا حصہ ہے ہی رہے گا‘‘۔

ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں ہماری حکومت یہ نہ سمجھ لے کہ ہم مارے گئے ہیں، ہم نے صوبیدار غلام علی کو دو جوانوں کے ساتھ پاک فوج کی طرف بھیجا کہ وہ انہیں ہمارے حال سے مطلع کریں۔ نو مہینوں کے بعد میجر غلام مرتضیٰ ہمیں لینے آئے اور ہمیں نکال کر پیارے پاکستان کی آزاد سرزمین میں لے گئے۔ بعد میں گلگت میں وزیر ِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان سے ہماری ملاقات کرائی گئی جنہوں نے شاندار الفاظ میں ہماری خدمات کو سراہا۔

گلگت، بلتستان کی آزادی کی جنگ کے ایسے کئی واقعات ہیں جو کہیں ریکارڈ پر نہیں آ سکے۔ آئی ایس پی آر کے زیر ِ اہتمام ہونے والے مذاکروں کی کاروائیاں ’’ڈیفنس اینڈ میڈیا‘‘ (Defence & Media Journal) میں شائع ہوتی رہتی ہیں یہ جریدے اس وقت کے ڈائریکٹر آئی ایس پی آر بر یگیڈئر سید محمد اقبال اور ڈائریکٹر میجر جنرل ریاض اللہ کی سرپرستی میں شائع ہوئے تھے لیکن عام آدمی کی ان تک رسائی نہیں ہوسکتی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کارروائی اردو میں شائع کی جائے تاکہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے عوام شجاعت و دلیری کی ان داستانوں سے آشنا ہو سکیں۔ ہماری رائے تو یہ ہے کہ اس درخشاں کارنامے کو گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کیا جائے۔

آزادی کے بعد گلگت میں ایک ’’انقلابی کونسل‘‘ قائم کی گئی جس کے سربراہ گلگت کے راجا شاہ رئیس خان تھے۔ انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ پشاور کے راستے قائد اعظم کو ٹیلیگرام دیا کہ ہم نے اس علاقے کو آزاد کرالیا ہے، یہ پاکستان کی امانت ہے، آپ اپنے کسی نمائندے کو بھیجیں جو آ کر یہاں کا انتظام و انصرام سنبھالے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا کہ آپ ہی پاکستان کے نمائندے ہو، آپ ہی کاروبار حکومت بھی چلائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ایک بیورو کریٹ سردار عالم خان پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر بھیجا گیا۔ اس کے بعد کی کہانی ایک دکھ بھری داستان ہے کہ ان علاقوں کے عوام کو کہیں نمائندگی نہیں ملی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں انہیں مقامی سطح پر اپنے نمائندے چننے اور اپنے مقامات خود چلانے کا اختیار حاصل ہوا۔

پاک فوج کی قیادت سنبھالنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان فوج کی ترتیب نو اس طرح کی جائے کہ میلینیم 2000ء اور اس سے آگے بھی وہ اپنی دفاعی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے سکے اور مندرجہ ذیل اہداف بھی حاصل کر لے۔

• دفاعی حکمت عملی (Defensive Strategy) کو جارحانہ دفاعی حکمت عملی (Offensive Defence Strategy) کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا جائے۔

• پاکستانی قوم کو فوج کی نئی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ ہو سکے جو 1971ء کی جنگ کے بعد مشکوک ہوگیا تھا۔

• دشمنوں کو بھی واضح پیغام دیا جائے کہ پاکستانی فوج ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی بھرپور صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔

• یہ اہداف ہم نے 1990ء تک حاصل کر لیے اور ضرب مومن مشقوں کا انعقاد کر کے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ تین لاکھ سے زیادہ جوانوں اور آفیسرز نے حصہ لیا۔ الحمدللہ ایک بھی حادثہ پیش نہیں آیا۔ میڈیا کے بھرپور تعاون سے اور 23 دوست ممالک کے فوجی وفود کی شرکت سے عالمی سطح پر پاکستان کی بری فوج کی جنگی صلاحیتیں روزِ روشن کی طرح واضح ہوئیں اور قوم کا اعتماد دو چند ہوا۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جسارت کراچی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: پی پی ایس (پاکستان پریس سروس) کا کسی بھی خبر، تبصرے، تجزیے یا کسی بھی مضمون نگار / کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ کو یہ تحریر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کریں۔ علاوہ ازیں آپ بھی اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر info@ppsnews.org پر ای میل کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے