تحریر: ہارون الرشید
خیبرپختونخواکے ضلع بٹگرام کپڑوں کے ایک ہندوتاجر نے رمضان المبارک میں اخوت،بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے اپنی دکان پر فروخت ہونے والی تمام اشیاء پر 50 فیصد رعایت دیدی، اس پیشکش نے نہ صرف مسلمانوں کے دل جیت لئے بلکہ یہ بین المذاہب کے احترام کی ایک بہترین مثال ہے،
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ لوگ اکٹھے ہوسکتے ہیں اور مذہبی تقریبات کے دوران ایک دوسرے کاساتھ دے سکتے ہیں چاہے ان کے اپنے عقائد کھ بھی ہوں۔
بٹگرام شہر کے مصروف اجمل بازار میں ”رام کلاتھ ہاؤس“ کے سامنے لٹکا ہوا ایک بڑے سائز کا بینر گاہلکوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہا ہے جو کہ مرد اور خواتین کے لیے تمام کپڑوں کی قیمتوں میں 50 فیصد تک رعایت دے رہا ہے۔
رام کلاتھ ہاؤس کے مالک اوربٹگرام کے رہائشی جیکی کمار بتاتے ہیں یہ رعایت روزہ دار مسلمانوں کو راحت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رمضان کے مقدس مہینے کے احترام میں کی گئی ہے۔
جیکی نے ”آن لائن پاکستان ڈیجیٹل“ کوبتایا کہ ہر سال مجھے رمضان سیزن میں مسلمانوں کو کپڑا بیچنے کے پانچ سے چھ لاکھ روپے ملتے ہیں لیکن اس سال اس رقم کو تنگ دستوں کو آسانی فراہم کرنے پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وہ مزیدبتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کے مقدس مہینے میں راحت دینے کا خیال اس وقت ذہن میں آیا جب ایک مسلمان دوست نے اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری میں اپنی مشکلات شیئر کیں۔
اپنے دوست کی مشکلات سننے اور ان گاہکوں کے اداس چہروں کو دیکھنے کے بعد جو صرف ونڈو شاپنگ کر رہے تھے اور کوئی خریداری نہیں کر رہے تھے، میں نے مسلمانوں کودلی خوشی پہنچانے کے لیے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہندوتاجرکی دکان پر لگے بینرزکے مطابق مردانہ سوٹ1400 کی بجائے750 اورزنانہ جوڑادوہزارکی بجائے ایک ہزارپرفروخت کیلئے دستیاب ہے۔
جیکی کمار نے مزید کہا کہ یہ پیشکش 28 مارچ (منگل) کو کی گئی ہے اور رمضان کے اختتام تک جاری رہے گی،
پچاس فیصد سیل کے اعلان کے دو دن کے اندر جیکی نے بتایا کہ بڑی تعداد میں لوگ ان کی دکان پر پہنچ گئے اور وہ تقریباً 5000 سوٹ فروخت کر چکے ہیں، تقریباً تمام صارفین بشمول مرد اور خواتین جنہوں نے پیشکش کا فائدہ اٹھایا۔
ایک ہندو تاجر کی طرف سے اس خیر سگالی کے اظہار پر حیرت اور خوشی کے جذبات کا اظہار کیا۔ دکان سے نکلتے وقت، آفر سے فائدہ اٹھانے والوں نے نہ صرف بہت شکریہ ادا کیا بلکہ معاشی دباؤ کے اس مشکل وقت میں انہیں ریلیف فراہم کرنے کے لیے ڈھیروں دعائیں بھی کیں۔
کمار نے اپنے اندرونی احساسات کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ میں لوگوں کے ردعمل کا مشاہدہ کرتے ہوئے کافی سکون واطمینان محسوس کر رہا ہوں اور مجھے احساس ہوا ہے کہ مالی نقصان کچھ بھی نہیں ہے جب کہ اس کا موازنہ انسانیت کی بہتری کے لیے کچھ اچھا کرنے سے ہو جاتا ہے۔
جیکی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ آئندہ عید الفطر کے موقع پر 12 سال تک کی عمر کے یتیم مسلم بچوں کو سلے ہوئے کپڑے فراہم کرنے کے انتظامات کریں گے۔
رام کلاتھ ہاؤس کے ایک دکاندار دلیپ کمار کہتے ہیں کہ ایک طرف ڈسکاؤنٹ کی پیشکش سے لوگوں کی طرف سے کافی تعریفیں حاصل کی ہیں لیکن مقامی تاجروں کی طرف سے بھی اس کی مذمت کی گئی ہے،
انہوں نے کہا کہ بہت سے مقامی فیبرک ڈیلرز نے فروخت کی پیشکش پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے جس سے ان کے مطابق ان کے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، دلیپ نے کہا یہ فیصلہ عوام کی بہتری کے لیے لیا گیا ہے اور اسے ڈیلرز کے دباؤ سے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
بٹگرام کے ایک مقامی صحافی احسان نسیم کا کہنا ہے کہ آج کل رام کلاتھ ہاؤس میں فروخت ہونے والے سوٹ کی قیمت فیکٹری ریٹ سے بھی کم ہے اور علاقے کے لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی ہے،
انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف بٹگرام بلکہ ملحقہ اضلاع کے لوگ بھی اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے اجمل بازار کا رخ کر رہے ہیں۔
جیکی کمار نے انسانیت پرستی کی ایک غیر معمولی مثال قائم کی ہے اور امید ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی ان سے سبق لیں گے کہ وہ مذہبی تہواروں کو منانے کے لیے اضافی فائدہ نہ اٹھائیں۔
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیئرپرسن ہارون سراب دیال نے تبصرہ کیا کہ جیکی کمار کی طرف سے اٹھایا گیا قدم پاکستان کے لوگوں کے درمیان بین المذاہب ہم آہنگی اور دوسرے مذاہب کے لیے احترام کی بہترین مثال ہے ہارون نے "آن لائن پاکستان ڈیجیٹل” کو بتایا کہ ہندو برادری کے بزرگ ہونے کے ناطے، ہم اپنی کمیونٹی کے ایک رکن کی طرف سے مسلمانوں کی بہتری کے لیے کیے گئے اس اقدام کو سن کر بہت خوش ہوئے ہیں، یہ ہمارے ملک کی بہترامیج اور متنوع عقائد کے لوگوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک مذہبی سکالر اور سابق ڈائریکٹر شیخ زاہد اسلامک سنٹر پروفیسر عبدالغفور نے تبصرہ کیا کہ اقلیتی برادری کے نمائندے کی طرف سے رمضان کی تعظیم میں جذبہ خیر سگالی ہمارے لیے ایک سبق ہے،
پروفیسر غفور نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم جیکی کمار کے جذبہ خیر سگالی کا بے حد خیرمقدم اور تعریف کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف لوگوں کی مدد کا مقصد پورا ہوگا بلکہ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں محبت، عزت اور احترام کے جذبات کو بھی فروغ ملے گا۔