صفحہ اول / آرکائیو / طورخم سرحد پر معصوم بچوں پر تشدد کے واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے

طورخم سرحد پر معصوم بچوں پر تشدد کے واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے

تحریر: اکمل قادری

لنڈی کوتل کی گیارہ سالہ بچی نسرینہ (فرضی نام) اپنے خاندان کی واحد کفیل ہے جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پاک افغان طورخم سرحد پر زمانے کی سختیاں جھیلتے ہوئے محنت مزدری کررہی ہے جوپل صراط سے کم نہیں ایک بم دھماکے میں والد کی وفات کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زندگی بیت رہی ہے جس روزمزدری نہ ملے اس دن پورا خاندان فاقہ کرنے پر مجبورہوتا ہے۔

پاک افغان بارڈر طورخم پر بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں محنت مزدوری کرتے ہوئے نظر اتے ہیں جس میں ہر ایک کی کہانی اپنی جگہ پر ایک منفرد اور انوکھی حیثیت رکھتی ہے جبکہ 11سالہ بچی نسرین (فرضی نام) کی کہانی کچھ الگ تھلگ ہے کیونکہ وہ محنت مزدری بھی کرتی ہے اور گھر کاکام کاج بھی ان کے ذمہ ہے۔

وہ کہتی ہے کہ 2017 میں کابل میں ایک دھاکہ میں ان کا والد جاں بحق ہوگیا اس وقت ان کی عمر پانچ سال تھی تاہم میری ماں نے گھر چلانے کے لیے استین چڑھالی اور وہ دوسروں کے گھروں میں کام کاج کرکے پیٹ پالتی تھی، میں بھی ان کے ساتھ جاتی تھی مگر آہستہ آہستہ ماں کی صحت خراب ہورہی تھی اور ڈاکٹروں نے ان کی بیماری کو دمہ کی بیماری قرار دیدیا اور یوں 2021میں میری ماں کی صحت جواب دے گئی اور میں نے طورخم سرحد پر سامان لیجانے اور لانے کی محنت مزدوری کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ ہمارے پاس دوسرا اپشن نہیں تھا۔

وہ کہتی ہے کہ طورخم سرحد پار کرنا ان کے لیے جان جوکھوں کے کام سے کم نہیں ہے کیونکہ کبھی کبھی ہم سرحد پر تعینات اہلکار کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں جو بہت ازیت ناک ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ دو لمحے ان کے لیے انتہائی دکھ درد بھری ہوتے ہیں ایک یہ کہ جس دن دیہاڑی نہ ملے اور دوسرا یہ کہ جب کمیشن کار انہیں وقت پر ان کو ان کی دیہاڑی کے پیسے نہ دے تو ایسی حالت میں گھر کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے جس سے ہمارے گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔

نسرین مزید کہتی ہے کہ محنت مشقت سے واپسی پر گھر کاکام بھی وہی کرتی ہے کیونکہ ان کی ماں بستر پر پڑی دمہ میں مبتلا مریضہ ہے کھانا بنانا، روٹی پکانا،برتن اور کپڑے دھونا،جھاڑو دینا ماں کو وقت پر دوائی دینا یہ سب ان کے ذمہ ہیں۔

وہ کہتی ہے کہ جس دن ان کا والد دھماکہ کی زد میں آیا اس سے ایک ماہ پہلے ان کی ایک بہن پیدا ہوئی تھی جب کہ بہن سے ایک سال چھوٹا ایک بھائی بھی ہے جن کی عمریں اب علی الترتیب 8 اور 9 سال کی بنتی ہیں تاہم وہ دونوں جسمانی طور پر معذور ہیں جو پڑھنے کے قابل ہیں اور نہ میری طرح کا کام کاج کا۔

وہ کہتی ہے کہ نو سال میں، میں نے بھی محنت مشقت شروع کی تھی اگر میری بہن جسمانی طورپر آج ٹھیک ہوتی تو وہ بھی میرے ساتھ کام پر جاتی اور میرا ہاتھ بٹاتی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بہت سی بچے گاڑیوں کے نچے اکر کچل گئے متعدد ذخمی ہوگئے ہیں دوسری طرف تشدد کے واقعات بھی آپ کے سامنے ہیں تو ایسے حالات میں آپ کو ڈر نہیں لگتا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ڈر کم، ڈر وہ بہت زیادہ ہے کہ جس دن میں گھر کچھ لے نہ جاوں ماں کے لیے دوائی کا بندوبست نہ کرو اس لیے میں نہیں ڈرتی۔

وہ کہتی ہے کہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے تاہم وہ ایک خواب ہوکر رہ گیا ہے، آخر میں انہوں نے بہت اہ کے ساتھ کہا کہ کھیل کود کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ رحیم گل (فرضی نام) کی ایک دس سالہ بیٹی بھی طورخم میں محنت مزدوری کرتی ہے جب ان کے والد سے پوچھا گیا کہ یہ بچی کی سکول جانے کا وقت ہے اپ کیوں اپنی بیٹی محنت مشقت کے لیے بھیجتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں اگر میری یہ بیٹی کام پر نہ گئی تو ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملے گااس کمر توڑ مہنگائی میں گھر کے اور بھی بہت سی ضروریات اور لوازمات ہیں جن کو پورا کرنا اسان کام نہیں ہے۔

جب ان کی بیٹی قدسیہ (فرضی نام) نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میری سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ شام کو میں اپنے معذور والد کے ہاتھ میں دن بھر کی کمائی کا پیسہ تھما دوں۔

پاک افغان طورخم سرحد پر تعینات اہلکاروں کی تشدد اور پکڑنے سے بچنے کے لیے بچے اور بچیاں بڑی گاڑیوں کے نیچے چھپتے ہیں جن کے ہاتھوں میں سامان بھی ہو تا ہے۔

مگر وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ٹائر وں کی زد میں آکر کچل بھی جاتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 سے لیکر اب تک 6 بچے اس طرح کے حادثات میں جاں بحق جبکہ 10سے زائد ذخمی ہوئے ہیں۔

طورخم سرحد پر چائلڈ لیبر کم کرنے کے لیے کئی این جی اوز نے کام شروع کیا تھا مگر سب اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر چلے گئے۔

چائلڈ لیبر میں مصروف بچوں اور بچیوں کے لیے سکول قائم کیاگیا تھا انہیں عصر حاضر کی تعلیم دلوانے کا وعدہ کیاگیاتھا مگر وہ ایفائے عہد نہ کر سکا اور نہ بچوں اور بچیوں کی حصول تعلیم کی تشنگی پوری ہو سکی۔

پاکستان میں وفاقی اور خیبر پختون خوا کے صوبائی سطح پر کم و بیش تقریباً 20 قوانین چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے بنائے گئے ہیں،

اس کے علاوہ چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے پاکستان بین الاقوامی سطح پر مختلف فورمز کا پارٹنر بھی ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں چائلڈ لیبر کا حجم بڑھ رہا ہے کیونکہ ان قوانین پر اس طرح عمل درامد نہیں کیاجا تا جس جذبہ سے وہ وضع کیے گئے تھے۔

ہیومن رائیٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں چائلڈ لیبرنگ میں مصروف بچوں اور بچیوں کی تعداد 10لاکھ سے زیادہ ہے۔

پروٹیکشن آف چائلڈ رائیٹس کے ایک این جی او کے ڈائریکٹر عمران ٹکر نے بتایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی سطح پر چائلڈ لیبر کا ایک جامع سروے کرے کیونکہ بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے حقیقی ڈیٹا حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ان کی تعلیم کے لیے بجٹ کا ایک بڑا حصہ مختص کرنا چاہئے تاکہ ہر بچہ سکول جا سکے کیونکہ صرف تعلیم ہی کے زریعے اس کا خاتمہ ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ووکیشنل تعلیمی اداروں خواہ رسمی ہو یا غیر رسمی کو قائم کیاجائے اور غربت کے خاتمہ کے لیے ایک پائیدار پروگرام کا اغاذکیاجائے اور ان بچوں کو اس پروگرام کا ہدف بنایاجائے جو چائلڈ لیبر کرتے ہیں یا سٹریٹ میں ہیں، قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیاجانا چاہئے، انسپیکشن نظام کو مظبوط کرناچاہئے اور بڑی سطح پر آگاہی پروگرامات کا انعقاد کیاجائے کہ بچوں اور بچیوں کو کام کی بجائے سکولوں کو بھیجا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے