تحریر: حسن افضال نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑجن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ پاکستانی سیاست اور عوامی حلقوں میں کوئی جانی پہچانی اور مقبول شخصیت کے مالک نہیں ہیں اور راقم الحروف کی طرح بے شمار دیگر افراد نے اْن کا نام ہی شاید پہلی مرتبہ سُنا اور پہلی مرتبہ ہی انہیں ٹی وی پر دیکھا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اْنہوں نے برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ شستہ اردو بولتے ہیں اور اعتماد کے ساتھ سنجیدہ مسائل پر گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں، لیکن صد افسوس کہ انہیں عوام کو در پیش ہولناک مسائل کا قطعاً ادراک نہیں۔ بجلی کے حد سے زیادہ بھاری بھر کم بلوں کے مسئلے پر اْن کا موقف کبھی عوام کے حق میں نہیں رہا۔ بقول اُن کے یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا اُسے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اور اس پر احتجاجاً شٹر ڈاون اور ہڑتالیں کی جا رہی ہیں، اْنہوں نے اپنے ایک فرمان عالی شان میں یہ بھی فرمایا بلکہ دھمکی دی کہ بل تو دینے پڑیں گے اور بل ادا نا کرنا بھی بجلی چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ نگراں وزیر اعظم نے بجلی کے ظالمانہ بلوں کے مسئلے پر متعدد اجلاس بھی منعقد کیے ہیں جن کا نتیجہ آئی ایم ایف کے سامنے کئی مرتبہ دست سوال طلب کرنے کے بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ آیا ہے کہ دوسو یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کو محصولات کے ضمن میں کچھ چھوٹ دی گئی ہے، جبکہ ایک چھے سو مربع فٹ کے فلیٹ میں جس میں صرف دو چھت کے …
مزید پڑھیںکشمیر کی آزادی میں گلگت بلتستان کا کردار
جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ 1980ء میں جی ایچ کیو میں کشمیر کی جنگ آزادی سے متعلق ہم نے تحقیق کی تو حیرت ہوئی کہ 1948ء کے جہاد کشمیر کے بہت سے اہم پہلو ایسے ہیں جو اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے لہٰذا اسی سلسلے میں ایک سمینار اسکردو میں منعقد ہوا۔ شمالی علاقہ جات جنہیں اب گلگت بلتستان کہا جاتا ہے کشمیر کا حصہ تھے اور چونکہ یہاں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی، اس لیے عوام کی خواہش پاکستان میں شمولیت کی تھی لیکن جب مہاراجا کشمیر نے ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو گلگت بلتستان کے لوگوں نے آزادی کی جنگ شروع کر دی۔ گلگت میں موجود گلگت اسکاوٹس کے دلیر صوبیدار میجر محمد بابر نے اپنے کمانڈنگ آفیسر اور سیکنڈ ان کمانڈ کو بیرکوں میں بند کر دیا۔ مہاراجا کے مقررکردہ گورنر بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ اور گورنر کی طرف سے ایک پیغام بونجی میں موجود بھارتی یونٹ 6 جموں اینڈ کشمیر بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل عبدالحمید کو بھیجا کہ وہ فوراً گلگت آئیں۔ وہ گھوڑے پر سوار گلگت پہنچے تو صوبیدار میجر بابر نے ان کا استقبال کیا اور گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے انہیں بتایا کہ گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنگ آفیسر میجر براون اور سیکنڈ ان کمانڈ کیپٹن میتھی کو بیرکوں میں قید کر دیا گیا ہے اور گورنر گھنسارا سنگھ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور اب آپ ان کی راہنمائی کریں۔ کرنل عبدالمجید نے صوبیدار میجر کو ڈانٹ پلائی کہ یہ کیا بچوں جیسی …
مزید پڑھیںشفاف اور غیرجانبدار انتخابات۔ وقت کی ضرورت
تحریر: لیاقت بلوچ آزادی بہت بڑی نعمت ہے، جس کی قدر وقت کا تقاضا ہے۔ یوم آزادی اللہ کا شکر بجالانے، غورو خوض کرنے اور اپنے محاسبے کا دِن ہے۔ جو ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر شاید بحیثیت قوم ہم غورو فکر نہیں کرتے اور اپنے عمل اور رویوں میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی پرعزم قیادت اور علامہ اقبال کی فِکر روشن نے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار اور متحرک کیا، جس کے نتیجے میں عظیم الشان تحریک پاکستان منظم اور برپا ہوئی۔ قیام پاکستان قائد اعظم کی کرشمہ ساز قیادت کا کردار ہے پاکستان، مِلت اسلامیہ کی آزادی اور اسلام نشاۃ ثانیہ کی طرف اوّلین قدم تھا۔ لیکن افسوس کہ 76سال گزرنے کے باوجود مقاصد حاصل نہ کیے جا سکے۔ قدرتی وسائل، انسانی وسائل اور بہترین جغرافیائی محل وقوع، ایٹمی صلاحیت اور ذرخیز زمین کے باوجود پاکستان بڑے بحرانوں سے دوچار ہے۔ قومی سلامتی کے لیے خطرات اپنی جگہ، بدترین اقتصادی صورتحال اور آئینی وسیاسی بحران سامنے کھڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فسطائیت اور دہشت گردی کا بڑھتا ہوا عفریت قومی قیادت کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔ اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی زوال خطرات کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ قوم عزم نو، ایمانی جذبوں کے ساتھ خوشحال، جدید اور روشن پاکستان بنانے کے لیے کمربستہ ہو۔ انوار الحق کاکڑ کا بطور نگران عبوری وزیراعظم تقرر خوش آئند ہے۔ اسی طرح وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا اتفاق بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ مگر نگران وزیراعظم کا نام اچانک کہاں سے برآمد ہوا اور اس پر سرعت کے …
مزید پڑھیں’’جڑانوالہ‘‘ ہم ایسے کیوں ہو گئے؟
حبیب الرحمٰن کا کالم بلجیم کی نور، معمر خاتون ہیں جن کا نام اسلام لانے سے قبل ’’جیورگاٹ لوبپول تھا۔ جب ان کی عمر 90 برس سے تجاوز کر گئی، یعنی یہ اولاد کی محتاج ہوگئیں تو ان کے بچوں نے فیصلہ کیا کہ ماں سے جان چھڑانی چاہیے۔ ایک دن طے ہوا کہ اگلے روز انہیں اولڈ ہائوس کے حوالے کر دیا جائے۔ جیورگاٹ لوبپول کے پڑوس میں ایک مراکشی خاندان مقیم تھا۔ 40 سال سے اس مسلمان فیملی کے ساتھ ان کے تعلقات تھے۔ السید محمد مداح خود بھی مسلم روایات کے امین تھے۔ محمد مداح کی والدہ بھی بوڑھی اور جیورگاٹ لوبپول کی ہم عمر تھیں۔ جب انہیں پتا چلا کہ پڑوسی اپنی ماں سے جان چھڑانے والے ہیں تو انہوں نے پڑوسیوں سے کہا کہ اگر یہ بزرگ تمہارے لیے بوجھ ہیں تو انہیں ہمارے حوالے کردو، یہ ہماری ماں کے ساتھ رہیں گی اور میں اپنی ماں کی طرح ان کا خیال رکھوں گا۔ یہ کہہ کر وہ جیورگاٹ لوبپول کو اپنے گھر لے آئے۔ خاتون نے یہاں آکر جو ماحول دیکھا، تو اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ سارے اہل خانہ مداح کی ماں کے لیے پلکیں بچھانے کو تیار رہتے تھے۔ کوئی باہر سے آتا تو پہلے اسے سلام کرکے ہاتھوں کا بوسہ لینا ضروری سمجھتا تھا۔ جیسے یہ بوڑھی ماں اس گھر کی ملکہ ہے۔ اسی طرح کے احترام کا سلوک اس بزرگ خاتون سے بھی کیا جانے لگا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ دو چار دن کی کہانی ہو، پھر یہ بھی میرے بچوں کی طرح ہو جائیں …
مزید پڑھیںاقلیت ہونے کی سزا تو بنتی ہے
وسعت اللہ خان کا کالم آج اقوامِ متحدہ کے تحت ( بائیس اگست ) مذہب کی بنیاد پر تشدد کے شکار لوگوں سے اظہارِ یکجہتی کا چوتھا سالانہ عالمی دن منایا جا رہا ہے۔اس کا مقصد ہر ریاست ، سماج اور فرد کو جتانا ہے کہ عقیدہ اور اس پر عمل کی بلا جبر و خوف آزادی بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کا لازمی جزو ہے اور اس چارٹر کو جن جن ریاستوں نے تسلیم کیا ہے وہ پابند ہیں کہ اس آزادی پر بلا رکاوٹ قانونی اور آئینی عمل درآمد یقینی بنائیں ، عدم رواداری کو فروغ دینے والی سوچ کی ہر مرحلے پر حوصلہ شکنی کریں اور ایسی قانون سازی کریں جس سے مذہبی اقلیتیں سماجی ، معاشی و سیاسی زیادتیوں سے جامع انداز میں محفوظ رہ سکیں۔ اگرچہ عقیدے کی بنیاد پر کسی فرد ، گروہ یا نظریے کو نشانہ بنانے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ مگر اکیسویں صدی میں فروغِ شعور کے دعوؤں کے باوجود تشدد میں سال بہ سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے تحت ایک خصوصی ایلچی کئی برس سے عالمی پیمانے پر مذہب کے نام پر زیادتیوں کی رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ مقصد ایسے تشدد کو نظرانداز کرنے والی ریاستوں کو ان کے بنیادی فرائض یاد دلانا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ بھی مذہبی آزادی کی عالمی صورتِ حال پر سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں ہر ملک کا احوال فرداً فرداً بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی بین الاقوامی تھنک ٹینک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے اپنے طور …
مزید پڑھیں”مائی لارڈ! نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ“
ناصر مغل کا کالم عمران خان 1996 ء میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے کے بعد باقاعدہ فعال سیاست کا حصہ بنے تھے۔ وہ 1997 میں پہلی بار قومی اسمبلی کے انتخاب میں جیت کر پارلیمنٹ پہنچے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عمران ان کے قریب چلے گئے۔ ان کی گڈ بک میں شامل ہوئے۔ 2001 میں نائن الیون واقعہ کے بعد افغانستان پر حملے کے لیے جب پاکستان امریکی اتحادی بنا تو عمران کی طرف سے اس فیصلے کی تائید اور دفاع ریکارڈ پر موجود ہے۔2002 میں دوسری بارانتخاب لڑ کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2007 میں پرویز مشرف کے خلاف سیاسی جماعتوں نے بڑی تحریک شروع کی تو عمران اس حزب اختلاف اتحاد کا حصہ بن گئے۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔اس طرح 12 برس تک وہ اس حد تک ہی مقبول تھے کہ دو بار صرف ذاتی طور پر الیکشن جیت سکے۔ مزید تین سال گزرے، صورت حال جوں کی توں رہی۔ پھر دسمبر 2011 میں یکایک ان کی پارٹی نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک عظیم الشان جلسہ کیا جس نے راتوں رات عمران خان کو سیاسی شہرت عطا کردی۔ اور وہ اچانک ایک بڑے سیاست دان کے طور پر ابھر کر سامنے آ گئے۔ کامل 15 سال تک ان کی شخصیت کا کرشمہ خوابیدہ رہا، اور ایک ہی جلسے نے پی ٹی آئی کو صف اول کی سیاسی جماعت کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ بالکل کسی فلمی کہانی کی طرح۔ لاہور جلسے کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف اور عمران خان کا جادو …
مزید پڑھیںپاکستان کا مقصد کیا…!!!
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان 14 اگست کا دن اہل پاکستان کے لئے پر جوش دن ہے، کیونکہ یہ فتح مبین کا دن ہے، آرزوؤں کی تکمیل کا دن ہے اور مسلمانان ہند کی آزادی کا دن ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر پاکستانی جشن آزادی پورے جوش و جذبے کیساتھ مناتے ہوئے قیام پاکستان کے مقصد پر غور کرے۔ ذہن کے گوشہء میں سوئے ہوئے افکار کو زندہ کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کی یادیں تازہ کرے ، اپنی بصیرت سے قیام پاکستان کے لئے چلائی گئی تحاریک کودیکھے، قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کے حالات کو چشم تصور میں لائے ، اور قیام پاکستان کے لئے دی گئی شہداء کی عظیم قربانیوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے غور کرے کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا ۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کس ریاست کا خواب دیکھا تھا؟بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کس لئے ایک علیحدہ ریاست کی جدو جہد کی تھی؟ پھر یہ حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ مختلف صوبوں، علاقوں، قوموں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جس قوت نے ایک متحد قوم بنا دیا وہ قوت اسلامی نظریہ تھا۔ کلمہ طیبہ کی برکت اور طاقت سے 27 رمضان المبارک 14 اگست 1947ء کے دن اللہ ربّ العزت کے خاص فضل و کرم سے ایک آزاد خود مختار، اسلامی فلاحی ریاست، پاکستان کامعرض وجود میں آنا بلاشبہ عوام پاکستان کے لیے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے، اور کلمہ طیبہ ہی ہمارا نظرئیہ پاکستان ہے۔ نظرئیہ پاکستان کے دو الفاظ …
مزید پڑھیںنعمت آزادی کے حصول میں برصغیر پاک وہند کے مسلم پریس کا کردار
تحریر: سردار حمید روغانی مسلمانان برصغیر پاک وہند کیلئے الگ اور آزاد ریاست کے حصول میں جہاں تک مسلمانوں کے سیاسی رہنماؤں نے بیداری قوم اور سیاسی میدان میں ایک متحرک اور نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس تحریک کو دوام بخشنے میں مسلم پریس اور ابلاغ کا بھی مرحلہ وار ایک اہم کردار رہا،اگرچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی موجودگی میں باقاعدہ طور پر صحافت کا آغاز ”ہکی گزٹ یا کولکتہ جنرل ایڈورٹائزر سے شروع ہوا تھا” جسے James Augustus Hickey نے شروع کیا تھا تاہم1857 کی جنگ آزادی اور تحریک خلافت کے بعد مسلمانوں میں اشتعال اور جذبہ حریت بڑھ گیا جسکے کئی تاریخی محرکات تھے،اسی اثنا میں مسلمانان ہند نے باقاعدہ طور پر آزادی کیلئے قومی سطح پر کوششوں کا آغاز کیا جس میں اس وقت کے موجود معمولی حیثیت کے مسلم پریس نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا،اس عمل کو ایک خطرے کے طور پر بھانپ کر مسلم صحافت کے خلاف اقدامات شروع ہوئے- اس حوالے سے پاکستان میں ہندو پاک پریس کے مورخین اور دانشوروں ”ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور ڈاکٹر مہدی حسن” کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں دہلی اردو اخبار کے پروپرائٹر کو قتل کیا گیا جبکہ اسکے ایڈیٹر محمد آزاد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے،اسی طرح ایک دوسرے اخبار کے ایڈیٹر جمال الدین کو 3 سال کیلئے جیل بھیج دیا گیا، اس دور میں مسلم پریس کو حوصلہ تب ملا جب سر سید احمد خان نے”سائنٹفک سوسائٹی میگزین” اور ”تہذیب الاخلاق” کی اشاعت کا آغاز کیا،انکے یہ دو مطبوعات مسلمانان پاک وہند میں سیاسی بیداری اور دو …
مزید پڑھیںواٹس ایپ نے بیٹا صارفین کیلئے متعدد اکاؤنٹس چلانے کا فیچر متعارف کروا دیا
کیلیفورنیا – ٹیکنالوجی کمپنی میٹا کی میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ نے بیٹا صارفین کیلئے ایک ایپ سے متعدد اکاؤنٹس چلانے کا فیچر متعارف کروا دیا۔ اس حوالے سے واٹس ایپ بیٹا انفو کا کہنا ہے کہ اینڈرائیڈ کیلئے واٹس ایپ بیٹا کی نئی اپ ڈیٹ میں ایک ایپ سے متعدد اکاؤنٹ کا فیچر متعارف کروایا گیا ہے، ایپ میں نیا اکاؤنٹ انتہائی سہولت کے ساتھ شامل کیا جاسکتا ہے، صارفین کو بس کیو آر کوڈ بٹن کے برابر میں موجود تیر کے نشان کو ٹیپ کرنا ہوگا۔ نئے فیچر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ صارفین اکاؤنٹ لاگ آؤٹ کیے بغیر باآسانی دیگر اکاؤنٹس کو چلا سکیں گے، نئے اکاؤنٹ تب تک فعال رہیں گے جب تک صارف ان کو لاگ آؤٹ نہ کریں، فیچر کا مقصد صارفین کے تجربے کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اس شاندار فیچر کو استعمال کرتے ہوئے صارفین اپنی نجی چیٹ، دفتر کی چیٹ اور دیگر چیٹ ایک ہی ایپ میں رہتے ہوئے الگ الگ رکھ سکیں گے، ساتھ ہی ہر اکاؤنٹ کیلئے گفتگو اور نوٹیفکیشن بھی علیحدہ رکھے جا سکیں گے۔
مزید پڑھیںنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کون؟ سیاست کا آغاز کیسے کیا؟؟؟
اسلام آباد – بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء انوارالحق کاکڑ ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم ہوں گے، انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغازجنرل(ر) پرویز مشرف دور میں کیا۔ تفصیلات کےمطابق انوار الحق کاکڑکا تعلق بلوچستان کے علاقے کان میتر زئی سے ہے اور وہ 1971 میں بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم سن فرانسز ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے کیڈٹ کالج کوہاٹ میں داخلہ لیا لیکن والد کے انتقال پرواپس کوئٹہ آگئے۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے لندن گئے جب کہ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں ماسٹرکیا۔ انوارالحق کاکڑ نےنے اپنی عملی سیاست کا سفر سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور سے شروع کیا اور اپنے علاقے کی قومی اسمبلی کی نشست پر 2008 میںمسلم لیگ ق سے الیکشن میں حصہ لیا تاہم ان انتخابات میں انوار الحق کاکڑ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ 2013 میں نواب ثنا اللہ زہری کے دور حکومت میں بلوچستان حکومت کے ترجمان رہے جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل میں ان کا کلیدی کردار رہا۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ 12 مارچ 2018 کو بلوچستان سے آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہوئے، اسی سال اگست میں انہوں نے صوبے میں بننے والی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوام پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت بھی بطور سینیٹر ایوان بالا میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی کے چئیرمین ہیں۔ انوار الحق کاکڑ سینیٹر منتخب …
مزید پڑھیں