صفحہ اول / آرکائیو / پاکستان کی نظریاتی اور دفاعی سرحدوں کی حفاظت کیلیےآزادی، خودمختاری، قومی وقار اور قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی پالیسی کی ضرورت ہے، قوموں کی سیاسی و عسکری طاقت ان کی معاشی طاقت پر منحصر ہوتی ہے، دفاع پاکستان کونسل

پاکستان کی نظریاتی اور دفاعی سرحدوں کی حفاظت کیلیےآزادی، خودمختاری، قومی وقار اور قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی پالیسی کی ضرورت ہے، قوموں کی سیاسی و عسکری طاقت ان کی معاشی طاقت پر منحصر ہوتی ہے، دفاع پاکستان کونسل

اسلام آباد: دفاع پاکستان کونسل میں شامل سیاسی، دینی اور مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین نے پاکستان کی نظریاتی اور دفاعی سرحدوں کی حفاظت کیلیے ایک ایسی حکمت عملی کی بنیاد رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو ہماری آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہو، قوموں کی سیاسی و عسکری طاقت ان کی معاشی طاقت پر منحصر ہوتی ہے، آزادی و خودمختاری، قومی تشخص، قومی وقار، شخصی خوش حالی اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے معیشت بنیادی اہمیت کی حامل ہے، پروپیگنڈہ اورمیڈیاوارکے ذریعے جھوٹ اورفساد پھیلایاجارہاہے جس سے ملک میں انتشاربڑھ رہاہے، آج ملک میں ذاتی سیاست کیلئے ریاست اور پوری قوم کو قربان کیا جا رہا ہے جو اس فورم کو کسی صورت قبول نہیں ، سیاسی فرقہ واریت فسادکی شکل اختیارکرچکی ہے جس کی وجہ سے قوم تقسیم کا شکارہے،

سیاست کودشمنی کا رنگ دیں گے تو ایسا طوفان برپا ہوگا جو پورے سسٹم کو تباہ و برباد کر دیگا، معیوب زبان، گالی گلوچ اور بلا تحقیق تنقید نہ ہی اسلامی تعلیمات ہیں اور نہ ہی مشرقی روایات کی امین، سوشل میڈیاکے ذریعے منظم پروپیگنڈہ کرکے حقائق کومسخ کیا جا رہا ہے،وقت کا تقاضا ہے کہ ہم فوری سنبھل جائیں اور معاملات سڑکوں پر طے کرنے کی بجائے متعلقہ ایوانوں میں حل ہوںاسی میں سب کی بہتری ہوگی مسائل تصادم سے نہیں بلکہ مکالمہ سے حل کیے جائیںہم واضع پیغام دیتے ہیں کہ کسی بھی انتشار کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور یہ کونسل اپنے ملک کی سلامتی اور دفاع کیلئے اپنی ریاست اور قوم کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار جملہ قائدین نے اہم اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس اور اعلامیہ میں کیا ہے۔ اس سلسلہ میں دفاع پاکستان کونسل کا اہم اجلاس چیئرمین دفاع پاکستان کونسل مولانا حامد الحق حقانی کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا، دفاع پاکستان کونسل میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین سربراہ اہلسنت والجماعت مولانا محمد احمد لدھیانوی ، امیر مشائخ و علما کونسل مولانا فضل الرحمان خلیل ،تحریک جوانان پاکستان عبد اللہ حمید گل ، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان ،

رکن آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی مولانا پیر مظہر شاہ ، پاکستان راہ حق پارٹی کے رہنما شیخ محمد اقبال، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولانا سید عتیق الرحمان شاہ، مسیحی برادری کی نمائندگی بشپ نذیر عالم، سکھ برادری کی نمائندگی سردار پرتاب سنگھ، اشاعت والتوحید کے رہنما مولانا اشرف علی، قبائل مومنٹ کے رہنما مولانا اسد اللہ حقانی، جمعیت علما اسلام (س) کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا سید محمد یوسف شاہ، مولانا عبد القدوس نقشبندی، مولانا ایوب خان ثاقب، مولانا عبد الحئی حقانی، حافظ عبد الرفیع، مولانا اعظم حسین، قاری امین الحسنات ، اہلسنت والجماعت کے مولانا عطا محمد دیشانی ودیگر نے شرکت کی۔ دفاع پاکستان کونسل کے رہنمائوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیااور پریس کانفرنس بھی کی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے ملک کواس وقت مختلف چیلنجزدرپیش ہیں،

بیرونی دشمن کے ساتھ اندرونی سازشیں بھی ملک کوعدم استحکام کا شکار کررہی ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتاجا رہا ہیجسکا براہِ راست اثر زندگی کے تمام شعبوں پر ہو رہا ہے، سیاست دانوں کی غلطیوں کا خمیازہ عام شہری بھگت رہاہے اور نجانے کب تک بھگتے گا، سیاسی و معاشی عدم استحکام پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرکے اس کی سالمیت کو خطرات سے دوچار کررہا ہے، معاشی بدحالی کی وجہ سے ملک کا بچہ بچہ قرضوں میں جکڑاہوا ہے ، چندارب ڈالرکے لیے آئی ایم ایف ہماری ناک سے لکیریں نکلوارہاہے،دشمن عالمی طاقتیں پاکستان کی کمزورمعاشی حالت سے لطف اندوزہورہی ہیں اورہمارے ملک کے چندکرداران کے ہاتھ کا کھلونا بنے ہوئے ہیں ۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ قوموں کی سیاسی و عسکری طاقت ان کی معاشی طاقت پر منحصر ہوتی ہے، آزادی و خودمختاری، قومی تشخص، قومی وقار، شخصی خوش حالی اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے معیشت بنیادی اہمیت کی حامل ہے، دفاع اور معیشت ساتھ ساتھ چلتے ہیں،خوشحال عوام ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں سے ہماری معیشت مسلسل تنزلی کا شکار ہے، تمام منفی معاشی اشاروں کے باوجود اگر یہ ملک چل رہا ہے تو اسے اللہ کے خصوصی فضل اور عوامی استقامت کا پھل سمجھنا چاہیے، ملک کے سیاسی کردار ملک کی ابتر معاشی صورت حال، ناانصافی، دہشتگردی اور دنیا میں بدلتے ہوئے تقاضوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے سیاسی فوائد کے حصول کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور ملکی سالمیت دائوپرلگا رکھی ہے، پروپیگنڈہ اورمیڈیاوارکے ذریعے جھوٹ اورفساد پھیلایاجارہاہے جس سے ملک میں انتشاربڑھ رہاہے، آج ملک میں ذاتی سیاست کیلئے ریاست اور پوری قوم کو قربان کیا جا رہا ہے

جو اس فورم کو کسی صورت قبول نہیں، سیاسی فرقہ واریت فسادکی شکل اختیارکرچکی ہے جس کی وجہ سے قوم تقسیم کا شکارہے، سیاست کودشمنی کا رنگ دیں گے تو ایسا طوفان برپا ہوگا جو پورے سسٹم کو تباہ و برباد کر دیگا، معیوب زبان، گالی گلوچ اور بلا تحقیق تنقید نہ ہی اسلامی تعلیمات ہیں اور نہ ہی مشرقی روایات کی امین، سوشل میڈیاکے ذریعے منظم پروپیگنڈہ کرکے حقائق کومسخ کیا جا رہا ہے، قوم کی اخلاقی تباہی معاشی تباہی سے بھی خوفناک ہے مگراس کاہمیں اداراک ہی نہیں، وطن عزیز کو اپنی بقا، آزادی و خودمختاری، قومی افتخار، اور اہم قومی مفادات کے دفاع کا مسئلہ درپیش ہے، ہماری آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے، ہمیں پاکستان کی نظریاتی اور دفاعی سرحدوں کی حفاظت کیلیے ایک ایسی حکمت عملی کی بنیاد رکھنی ہے جو ہماری آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہو، چند قومی مفادات ایسے ہیں جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، ملکی دفاع صرف عسکری دفاع تک محدود نہیں ہے

بلکہ اس کی کئی جہتیں ہیں، جو سیاسی، انسانی، عسکری، ثقافتی اور معاشی میدان تک پھیلی ہوئی ہیں، اس سیاق و سباق کو سامنے رکھتے ہوئے جو دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، اس میں ملکی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے، قومیں اپنے رہنماوں کی پیروی کرتی ہیں لیکن افسوس کے دور حاضر میں وہ سیاسی لیڈر افق پر نظر آتے ہیں جنکی نگاہیں آنے والے الیکشنوں پر ہوتی ہیں نہ کہ آنے والی نسل پر، سیاست دانوں کو صرف اور صرف قوم اور ملک کا مفاد پیش نظر رکھنا چاہیے اور اسی صورت میں ہی ملک ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور اس سے سماجی سطح پر جو مثبت اثرات سامنے آئیں گے اس سے یقینا جمہوری نظام بھی مضبوط ہو گا

جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا فائدہ ہے۔حالات اب یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ قومی سلامتی کے اداروں متعلق عوام میں زہر گھولا جا رہا ہے ملک کوخدانخواستہ شام اورعراق بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں ملک کے ایٹمی اثاثوں پرانگلیاں اٹھائی جارہی ہیں بیرون ملک پاک فوج اورملکی اداروں کے خلاف گھنائونی مہم چلائی جارہی ہے غیرملکی ایجنٹ کھلم کھلا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال زلمے خلیل زاد ہے جو براہ راست پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، سب سے اہم مسئلہ ہماری نظریاتی، اخلاقی اور ثقافتی شناخت کا ہے۔ اس میدان میں بھی ہم کئی سمجھوتے کر چکے ہیں اور کئی دفعہ مار کھا چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کے افراد سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ صرف چند سیاسی یا معاشی مفادات کی خاطر کوئی جدوجہد کریں اور اپنا سب کچھ قربان کردیں۔ لوگ اس سے بلند تر چیزوں کے لیے زندہ رہتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں۔ چنانچہ دفاع و خودمختاری کے ساتھ ساتھ ہماری نظریاتی و ثقافتی شناخت بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

اسی لیے اسلام بطور مذہبی شناخت ہمارے لیے نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم فوری سنبھل جائیں اور معاملات سڑکوں پر طے کرنے کی بجائے متعلقہ ایوانوں میں حل ہوںاسی میں سب کی بہتری ہوگی مسائل تصادم سے نہیں بلکہ مکالمہ سے حل کیے جائیںہم واضع پیغام دیتے ہیں کہ کسی بھی انتشار کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور یہ کونسل اپنے ملک کی سلامتی اور دفاع کیلئے اپنی ریاست اور قوم کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ انشااللہ ۔اجلاس میں درج ذیل قراردیں بھی پیش کی گئیں ۔ ملک کی مذہبی وسماجی قیادت پر مشتمل یہ نمائند اجتماع ملک و ملت کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کے احکام، سالمیت، فکری وحدت، قومی وقار اور دینی تشخص کے تحفظ کے لیے کسی غفلت اور تساہل کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔ سیاسی منافرت اور انتشار کے خاتمے کیلئے تمام طبقات اپنا کر دار ادا کریں۔ جامع منصوبہ بندی اور قومی مشاورت کے ذریعے ملک کو اس مہنگائی کے طوفان سے نکالا جائے اور ملکی معیشت کو استحکام کے راستے پر ڈالاجائے ۔

ملک و ملت کی دینی وسماجی اقدار پر حملہ اور فحاشی و عریانی کی تہذیب کے انسداد کے لیے بھر پور کوشش کی جائے ملک کی سالمیت ، امن اور وحدت کے ضمن د علمبر دار اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط اظہار یک جہتی کرتے ہوئے یہ اجتماع تمام سیاسی و مذہبی قوتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اداروں کو متنازع بنانے سے گریز کیا جائے ۔ ناموس رسالت، ختم نبوتۖ، صحابہ کرام و اہلبیت اور مقدس شخصیات کی حرمت سے متعلق قوانین کے خلاف سازشوں کا سد باب کیاجائے ۔ یہ اجتماع کشمیر و فلسطین اور تمام مظلوم اقوام کے حق آزادی کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اجتماع پاک افغان تعلقات کے استحکام اور فروغ کی تمام کوششوں کو خطے کے امن و سلامتی کے لیے انتہائی مفید اور ضروری سمجھتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے