اسلام آباد( آن لائن پاکستان ڈیجیٹل) سینیٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ’’دی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل’’ 2023 ‘‘قومی اسمبلی سے منظور کر دہ صورت میں سینیٹ میں پیش کر نے کی تحریک پیش کی۔ وزیر قانون نے بل کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس بل کی 7 شقیں آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوانین میں رد وبدل کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں یہ نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ اجتماعی سو چ کی بجائے فرد واحد کی سوچ پر انحصار کیا جانے لگا۔ بار کونسلز ،بار ایسوسی ایشن، سول سوسائٹی ، سرکاری ملازمین ، کاروباری طبقے سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کی طرف سے اس پر اعتراضات اٹھے۔ گزشتہ 18، 20 سالوں کے دوران ہم نے وہ ادوار بھی دیکھے جب آرٹیکل 184 (3) کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
ایسے ایسے معاملات پر از خودنوٹس لئے گئے کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ سکولوں میں بچوں کی یونیفارم ، ہسپتالوں میں پارکنگ کے معاملات، میلی چادروں ، اساتذہ کی تعیناتیوں اور جیل کے کھانوں جیسے معاملات پر بھی از خود نوٹس لئے گئے۔ اربوں کی لاگت سے تعمیر ہونےو الا پی کے ایل آئی ہسپتال ایک سابق چیف جسٹس کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا۔ وکلا کی مختلف باڈیز نے یہ مطالبہ کیا کہ از خود نوٹس فرد واحد کا نہیں ادارے کا اختیار ہونا چاہیے۔ سوموٹو کے بے دریغ استعمال کے نقصانات، قومی اثاثوں کے اربوں ڈالر کے نقصان کی صورت میں سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تما م ججز برابر ہیں اور اجتماعی سوچ کو آگے لے کربڑھنا چاہیے، نہ کہ شخصیات کو مضبوط کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل میں تجویز کیا گیا کہ تین ججز بشمول چیف جسٹس پر مشتمل کمیٹی بینچز کی تشکیل کا فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مشاورت اور اتفاق رائے کا اس قدر فقدان ہے کہ 2019 میں آخری فل کورٹ میٹنگ ہوئی تھی۔ آرٹیکل 10اے شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ دین اورشریعت بھی اپیل کا حق دیتی ہے لیکن 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے تو اس پر اپیل کا حق نہیں ملتا۔ کراچی میں نسلہ ٹاور گرادیا گیا ہے۔ لوگوں کی ذاتی جائیداد کے مقدمات بھی از خود نوٹس لے کر سنے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ترامیم کو وکلا برادری کی حمایت حاصل ہے اور اس وقت گیلری میں اڑھائی لاکھ وکلا کے نمائندے بیٹھے ہیں۔ ہم نے ترامیم میں تجویز کیا کہ ملزم کو مرضی کا وکیل کرنے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے۔ ہم یہ بل نیک نیتی سے عوام کے بھلے اور فائدے کے لئے لا رہے ہیں جس سے شخصی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگا اور اجتماعیت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے درخواست کی اس بل کو آج ہی مظور کیاجائے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ حکومت کے اس بل لانےکامقصد اصلاحات نہیں بلکہ سیاسی مفادات ہیں۔ بل کے اغراض و مقاصد در اصل کچھ اور ہیں۔ وزیرقانون نے درخواست کی ہے کہ بل ابھی منظور کیاجائے اور کمیٹی کو نہ بھیجا جائے یہ درست طریقہ کار نہیں ۔انہوں نے چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ بل کمیٹی کو بھجوایاجائے تاکہ سینیٹ کمیٹی میں بھی اس بل پر غور وخوض ہو سکے۔
سنیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ اس بل کی بلوچستان عوامی پارٹی حمایت کرتی ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اور وکلا برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ فرد واحد کو اختیارحاصل نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں عدلیہ اس طرح از خود نوٹس نہیں لیتی ۔ سالہا سال سے لوگوں کے مقدمات زیر لتوا ہیں۔ عدلیہ کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ حکومت وکلا برادری کی مشاورت سے مزید اصلاحات کرے۔ سینیٹررضا ربانی نے کہا ہے کہ عدلیہ میں موجودہ صورتحال ریاست کےلئے نقصان دہ ہے، چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بار کونسلز پہلے ہی آوازیں اٹھا رہی تھیں، اب سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئرترین جج نے بھی گزشتہ روز از خود نوٹس کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے۔ اس صورتحال پر پارلیمنٹ آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے تنازعات پارلیمنٹ میں حل کرنے کی بجائے عدالتوں کے پاس لے گئیں، مجبوراً عدلیہ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا پڑی۔ مذاکرات صرف پارلیمنٹ کے ذریعے کئے جاسکتے ہیں۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارا کام قانون سازی اور آئین میں ترمیم کرنا ہے،پارلیمنٹ بالادست ہے ، ہماری ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کا کام انسانی حق کی تشریح کرنا ہے۔ جلد بازی میں قانون سازی کی گئی تو یہ عدالت میں چیلنج ہوجائے گی۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس بل پر بحث ہونی چاہئے، یہ بل کمیٹی کو بھیجا جائے۔ پارلیمنٹ میں تمام اداروں کی مداخلت بند کی جائے۔
سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ عدلیہ کو سیاست زدہ نہیں ہونا چاہئے، یہ ریاست کے مفاد میں نہیں۔بعد ازاں چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے بل پر شق وار رائے شماری کرائی ۔ اراکین نے کثرت رائے سے بل کی منظوری دید ی جبکہ اپوزیشن نے اس موقع پر شور شرابہ جاری رکھا۔